کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اِسی آئینے میں تھا
قُلزم نے بڑھ کے چوم لیے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا
اِک رشتئہ وفا تھا سو کس ناشناس سے
اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا
صہبائے تند و تیز کی حِدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھئے جو مزہ ٹوٹنے میں تھا
کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے تھا
تائب تھے اِحتساب سے جب سارے بادہ کش
مجُھ کو یہ افتخار کہ میں مَے کدے میں تھا