درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشہ ہوا گلہ نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا