دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں (مرزا غالب)

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہزار بار کوئی ہمیں رلائے کیوں

دیر نہیں حرم نہیں ، در نہیں آستاں نہیں

بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں

جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز

آپ ہی ہو نظارہ سوز ، پردے میں منہ چھپائے کیوں

قید و حیاتِ بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں

واں وہ غرور و عزوناز، یاں یہ حجابِ پاسِ وضع

راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں

ہاں! وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی

جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں

غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

روئیے زار زار کیا ، کیجیئے ہائے ہائے کیوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *