اک کربِ مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں (آنس معین)

اک کربِ مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں

مقتل میں ہیں جینے کی سزا دیں تو کسے دیں

پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے

اس شہرِ خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں

ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے

سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو کسے دیں

سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ

اور پاس ہے بس ایک ردا دیں تو کسے دیں

جب ہاتھ ہی کٹ جائیں تو تھامے گا بھلا کون

یہ سوچ رہے ہیں کہ عصا دیں تو کسے دیں

بازار میں خوشبو کے خریدار کہاں ہیں

یہ پھول ہیں بے رنگ بتا دیں تو کسے دیں

چپ رہنے کی ہر شخص قسم کھائے ہوئے ہے

ہم زہر بھرا جام بھلا دیں تو کسے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *