میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے (انور مرزا پوری)

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے

نہ جُھکاو تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جائے

ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی

تیرا رِند گِرتے گِرتے کہیں پِھر سنبھل نہ جائے

میری زندگی کے مالک میرے دل پہ ہاتھ رکھنا

تیرے آنے کی خوشی میں میرا دَم نکل نہ جائے

میرے اَشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے

میرا جام چُھونے والے تیرا ہاتھ جَل نہ جائے

میں بنا تو لوں نشیمن کسی شاخِ گُلستاں پہ

کہیں ساتھ آشیاں کے یہ چمن بھی جل نہ جائے

مجھے پھُونکنے سے پہلے میرا دل نکال لینا

یہ کسی کی ہے امانت، میرے ساتھ جل نہ جائے

میرے آشیاں پہ یارب یہ کرم رہے گا کب تک

کبھی بجلیاں گِرا دہں، کبھی شاخ ٹوٹ جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *