کارِ دنیا سے فرومایہ محبت نکلی
اہلِ دل میں بھی بہت جینے کی حسرت نکلی
تم کہو زیست کو کس رنگ میں دیکھا تم نے
زندگی اپنی تو خوابوں کی امانت نکلی
پھر کوئی منزلِ بے نام بلاتی ہے ہمیں
رہنمائی کے لئے دھوپ کی شدت نکلی
پاس کی چیزوں پہ دوری کے دھندلکے چھائے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کی صورت نکلی