کہنے کو تو ہر بات کہی تیرے مقابل
لیکن وہ فسانہ جو مرے دل پہ رقم ہے
محرومی کا احساس مجھے کس لئے ہوتا
حاصل ہے جو مجھ کو کہاں دنیا کو بہم ہے
یا تجھ سے بچھڑنے کا نہیں حوصلہ مجھ میں
یا تیرے تغافل میں بھی اندازِ کرم ہے
تھوڑی سی جگہ مجھ کو بھی مل جائے کہیں پر
وحشت ترے کوچے مرے شہر سے کم ہے
اے ہم سفرو ٹوٹے نہ سانسوں کا تسلسل
یہ قافلئہ شوق بہت تیز قدم ہے