خموش رہنا ہے اے اہلِ درد یوں کب تک
رگِ گلو میں چبھی گی یہ موجِ خوں کب تک
بہت دنوں سے گزرگاہِ خواب سونی ہے
سرائے شام ! یہاں اور میں رکوں کب تک
کسی نے کھول دیئے بادبان یادوں کے
تجھے پکاروں کہاں صدائیں دوں کب تک
ہر ایک شخص پہ تیرا گمان ہوتا ہے
یہ دیکھنا ہے کہ رہتا ہے یہ جنوں کب تک