کھلے جو آنکھ کبھی دیدنی یہ منظر ہیں (شہریار)

کھلے جو آنکھ کبھی دیدنی یہ منظر ہیں

سمندر کے کناروں پہ ریت کے گھر ہیں

نہ کوئی کھڑکی نہ دروازہ واپسی کے لیے

مکانِ خواب میں جانے کے سینکڑوں در ہیں

گلاب ٹہنی سے ٹوٹا زمیں پر نہ گرا

کرشمے تیز ہوا کے سمجھ سے باہر ہیں

کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا سراب سب کا ہے

سبھی ہیں پیاس کے مارے سبھی برابر ہیں

حسین ابن علی کربلا کو جاتے ہیں

مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *