یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے (شہریار)

یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے

اک پل بھی اگر بھول کے ہم سو گئے ہوتے

اے شہر ترا نام و نشاں بھی نہیں ہوتا

جو حادثے ہونے تھے اگر ہو گئے ہوتے

ہر بار پلٹے ہوئے گھر کو یہی سوچا

اے کاش کسی لمبے سفر کو گئے ہوتے

ہم خوش ہیں ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے

اجداد کہیں پیڑ بھی کچھ بو گئے ہوتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *