مسافر کے رستے بدلتے رہے (بشیر بدر)

مسافر کے رستے بدلتے رہے

مقدر میں چلنا تھا چلتے رہے

سنا ہے انہیں بھی ہوا لگ گئی

ہواؤں کے رُخ جو بدلتے رہے

محبت عداوت وفا بے رُخی

کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے

وہ کیا تھا جسے ہم نے ٹھکرادیا

مگر عمر بھر ہاتھ ملتے رہے

کوئی پھول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا

میرے پاؤں شعلوں میں جلتے رہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *