پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے (بشیر بدر)

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے

پھولوں میں غزل رکھنا یہ رات کی رانی ہے

اس میں تری زلفوں کی بے ربط کہانی ہے

اک ذہنِ پریشاں میں وہ پھول سا چہرہ ہے

پتھر کی حفاظت میں شیشے کی جوانی ہے

کیوں چاندنی راتوں میں دریا پہ نہاتے ہو

سوئے ہوئے پانی میں کیا آگ لگانی ہے

اس حوصلئہ دل پر ہم نے بھی کفن پہنا

ہنس کر کوئی پوچھے گا کیا جان گنوانی ہے

رونے کا اثر دل پر رہ رہ کے بدلتا ہے

آنسو کبھی شیشیہ ہے آنسو کبھی پانی ہے

یہ شبنمی لہجہ ہے، آہستہ غزل پڑھنا

تتلی کی کہانی ہے پھولوں کی زبانی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *