یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو (بشیر بدر)

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو

وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے یہاں فاصلے سے ملا کرو

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا

تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو

کبھی حسنِ پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں

جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو

اسے اتنی گرمئی شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو

یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے

یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *