تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر (ساحر لدھیانوی)

ہراس

تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر

میرے تخیل میں رہ رہ کے جھلک اٹھتی ہے

یوں اچانک تیرے عارض کا خیال آتا ہے

جیسے ظلمت میں کوئی شمع بھڑک اٹھتی ہے

تیرے پیراہنِ رنگیں کی جنوں خیز مہک

خواب بن بن کے میرے ذہن میں لہراتر آتی ہے

رات کی سرد خموشی میں ہر اک جھونکے سے

تیرے انفاس، تیرے جسم کی آنچ آتی ہے

میں سلگتے ہوئے رازوں کو عیاں تو کر دوں

لیکن ان رازوں کی تشہیر سے جی ڈرتا ہے

رات کے خواب اجالوں میں بیاں تو کر دوں

ان حسیں خوابوں کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے

تیری سانسوں کی تھکن، تیری نگاہوں کا سکوت

در حقیقت کوئی رنگین شرارت ہی نہ ہو

میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں

وہ تبسم وہ تکلم تیری عادت ہی نہ ہو

سوچتا ہوں کہ تجھے مل کے میں جس سوچ میں ہوں

پہلے اس سوچ کا مقسوم سمجھ لوں تو کہوں

میں ترے شہر میں انجان ہوں پردیسی ہوں

تیرے الطاف کا مفہوم سمجھ لوں تو کہوں

کہیں ایسا نہ ہو پاؤں مرے تھرا جائیں

اور تری مرمریں بانہوں کا سہارا نہ ملے

اشک بہتے رہیں خاموش سیاہ راتوں میں

اور ترے ریشمی آنچل کا کنار نہ ملے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *