غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر (میر تقی میر)

غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر

جاتے رہیں گے ہم بھی گریباں پھاڑ کر

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے

پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر

یا رب رہِ طلب میں کوئی کب تلک پھرے

تسکیں دے کہ بیٹھ رہوں پاؤں گاڑ کر

منظور ہو نہ پاس ہمارا تو حیف ہے

آئیں ہیں آج دور سے ہم تجھ کو تاڑ کر

نکلیں گے کام دل کے کچھ اب اہلِ رِش سے

 کچھ ڈھیر کر چکے ہیں یہ آگے اکھاڑ کر

اُس فن کے پہلوانوں سے کَشتی رہی ہے میر

بہتوں کو ہم نے زیر کیا ہے پچھاڑ کر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *