دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا (وسیم بریلوی)

دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا

تم کو بھی تو اندازہ لگانا نہیں آتا

پہنچا ہے بزرگوں کے بیانوں سے جو ہم تک

کیا بات ہوئی کیوں وہ زمانہ نہیں آتا

میں بھی اسے کھونے کا ہنر سیکھ نہ پایا

اس کو بھی مجھے چھوڑ کے جانا نہیں آتا

ڈھونڈے ہے تو پلکوں پہ چمکنے کے بہانے

آنسو کو مری آنکھ میں آنا نہیں آتا

تاریخ کی آنکھوں میں دھواں ہو گئے خود ہی

تم کو تو کوئی گھر جلانا نہیں آتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *