تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزہ کچھ بھی نہیں (کلیم عاجز)

تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزہ کچھ بھی نہیں

زندگی دردِ محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

شمع خاموش بھی رہتے ہوئے خاموش کہاں

اس طرح کہہ دیا سب کچھ کہ کہا کچھ بھی نہیں

ہم گدایانِ محبت کا یہی سب کچھ ہے

گر چہ دنیا یہی کہتی ہے وفا کچھ بھی نہیں

یہ نیا طرزِ کرم ہے تیرا اے فصلِ بہار

لے لیا پاس میں جو کچھ تھا دیا کچھ بھی نہیں

ہم کو معلوم نہ تھا پہلے یہ آئینئہ جہاں

اس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطا کچھ بھی نہیں

وہی آہیں وہی آنسو کے دو قطرے عاجز

کیا تیری شاعری میں ان کے سوا کچھ بھی نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *