ہر چوٹ پہ پوچھے ہے بتا یاد رہے گی (کلیم عاجز)

ہر چوٹ پہ پوچھے ہے بتا یاد رہے گی

ہم کو یہ زمانے کی ادا یاد رہے گی

دن رات کے آنسو، سحر وشام کی آہیں

اس باغ کی یہ آب و ہوا یاد رہے گی

کس دھوم سے بڑھتی ہوئی پہنچی ہے کہاں تک

دنیا کو تری زلفِ رسا یاد رہے گی

کرتے رہیں گے تم سے محبت بھی وفا بھی

گو تم کو محبت نہ وفا یاد رہے گی

کس بات کو تو قول و قسم لے ہے برہمن

ہر بات بتوں کی بخدا یاد رہے گی

چلتے گئے ہم ، پھول بناتے گئے چھالے

صحرا کو مری لغزشِ پا یاد رہے گی

جس بزم میں تم جاؤگے اس بزم میں عاجز

یہ گفتگوئے بے سرو پا یاد رہے گی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *