اب مجھے اتنا بھی لاچار نہ سمجھیں مِرے لوگ
صلح نامے کو مری ہار نہ سمجھیں مرے لوگ
میری پسپائی پہ سو جشن منائیں ، لیکن
میرے دشمن کو تو سالار نہ سمجھیں مرے لوگ
پھر تو یوں ہے کہ مرا خون اکارت ہی گیا
گر اب بھی مجھے وفادار نہ سمجھیں مرے لوگ
دل نے کچھ اور ہی ٹھانی ہے سو ترغیبِ جہاں
میری خاموشی کو اقرار نہ سمجھیں مرے لوگ
یوں نہ ہو پھر میرا جا بھی نہ دیکھا جائے
مجھ کو اتنا بھی وفادار نہ سمجھیں مرے لوگ
راہ کی دھوپ گزاریں مری چھاؤں میں ، مگر
میں شجر ہوں ، مجھے دیوار نہ سمجھیں مرے لوگ
جس کا جی چاہے ، وہ پڑھ لے مرا چہرہ احمد
آدمی ہوں ، مجھے اخبار نہ سمجھیں مرے لوگ