ہنگامۂ غم سے تنگ آ کر اظہارِ مسرّت کر بیٹھے (شکیل بدایونی)

ہنگامۂ غم سے تنگ آ کر اظہارِ مسرّت کر بیٹھے
مشہور تھی اپنی زندہ دلی دانستہ شرارت کر بیٹھے

کوشش تو بہت کی ہم نے مگر پائی نہ غمِ ہستی سے مَفَر
ویرانئ دل جب حد سے بڑھی گھبرا کے محبت کر بیٹھے

ہستی کے تلاطم میں پنہاں تھے عیش و طرب کے دھارے بھی
افسوس ہمی سے بھول ہوئی اشکوں پہ قناعت کر بیٹھے

زندانِ جہاں سے یہ نفرت اے حضرتِ واعظ کیا کہنا
اللہ کے آگے بس نہ چلا بندوں سے بغاوت کر بیٹھے

گلچیں نے تو کوشش کر ڈالی سونی ہو چمن کی ہر ڈالی
کانٹوں نے مبارک کام کیا پھولوں کی حفاظت کر بیٹھے

ہر چیز نہیں ہے مرکز پر اک ذرہ اِدھر اک ذرہ اُدھر
نفرت سے نہ دیکھو دشمن کو شاید وہ محبت کر بیٹھے

اللہ تو سب کی سنتا ہے جرات ہے شکیل اپنی اپنی
حالی نے زباں سے اُف بھی نہ کی اقبال شکایت کر بیٹھے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *