یاد کی صبح ڈھل گئی شوق کی شام ہو گئی (شمیم کرہانی)

یاد کی صبح ڈھل گئی شوق کی شام ہو گئی
آپ کے انتظار میں عمر تمام ہو گئی

پی ہے جو ایک بوند بھی جاگ پڑی ہے زندگی
ایسی شرابِ جاں فزا کیسے حرام ہو گئی

ساتھ کسی نے چھوڑ کر توڑ دیا کسی کا دل
چل تو پڑا تھا کارواں راہ میں شام ہو گئی

نکلے بیادِ مے کدہ تاروں کے ساتھ ساتھ ہم
جام تک آ کے زندگی ماہِ تمام ہو گئی

راس نہ آئی زیست کو صبحِ بہار کی ہوا
اہلِ جنوں کی انجمن خلوتِ جام ہو گئی

آج وہ مسکرا دیے آج ہماری زندگی
آگ سے پھول بن گئی پھول سے جام ہو گئی

بزم سے بے زباں اٹھے راہ میں گفتگو نہ کی
کیسے ہماری داستاں شہر میں عام ہو گئی

رات کی جشن گاہ پر اوس پڑی ہے نیند کی
بادِ سحر نہ جانے کیوں محوِ خرام ہو گئی

سن لی زبانِ خلق سے ہم نے غزل شمیم کی
کون سی خاص بات ہے کس لیے عام ہو گئی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *