یہ سِتَم اور، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو (ناصر کاظمی)

یہ سِتَم اور، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو
اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو

ہے عبث فکرِ تلافی تُجھے، اے جانِ وفا
دُھن ہے اب اور ہی کُچھ، تیرے طلبگاروں کو

تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں
ہم نے گبھرا کے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو

ناگہاں پُھوٹ پڑے روشنیوں کے جھرنے
ایک جھونکا ہی اُڑا لے گیا اندھیاروں کو

سارے اِس دَور کی مُنہ بولتی تصوِیریں ہیں
کوئی دیکھے مِرے دِیوان کے کِرداروں کو

نالۂ آخرِ شب کِس کو سُناؤں ناصؔر
نیند پیاری ہے مِرے دَور کے فنکاروں کو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *