دل کو آئے کہ نگاہوں کو یقیں آ جائے (صوفی تبسم)

دل کو آئے کہ نگاہوں کو یقیں آ جائے
کسی عنواں تو کوئی میرے قریں آ جائے


بکھرے رہنے دو سر راہ نشان کف پا
جانے کس دم کوئی آوارہ جبیں آ جائے


سنتے جاؤ مرا بے ربط فسانہ شاید
انہی باتوں میں کوئی بات حسیں آ جائے

اور پھر اس کے سوا سحر محبت کیا ہے؟
یک بیک جیسے کوئی دل کے قریں آ جائے


جام کیا چیز ہے مے خانہ اڑاؤ یارو!
جانے کس دم لب ساقی پہ ”نہیں” آ جائے


وہ تری یاد کا پرتو ہو کہ ہو سایۂ زلف
چین آ جائے طبیعت کو کہیں آ جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *