اب وہ زیبائشیں کہاں باقی (اتباف ابرک)

اب وہ زیبائشیں کہاں باقی

دل کی فرمائشیں کہاں باقی

یونہی خود ساختہ سا ہنستا ہوں

ورنہ گنجائشیں کہاں باقی

کوئی کہہ دے تو مسکراتا ہوں

خود میں اب خواہشیں کہاں باقی

دسترس میں حیات ہے لیکن

اس کی آرائشیں کہاں باقی

رونقیں دیکھنے میں جوبن پر

کل سی گرمائشیں کہاں باقی

ساری آلودگی ہے یادوں کی

نئی آلائشیں کہاں باقی

یہ نمی غیر کا ہی غم ہو گا

اب یہ آسائشیں کہاں باقی

روز و شب آج بھی ہیں پہلے سے

اِن کی پیمائشیں کہاں باقی

حرف سارے ترے وہی ابرک

پر وہ فہمائشیں کہاں باقی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *