اپنا سا شوق اروں میں لائیں کہاں سے ہم
گھبرا گئے ہیں بے دلئی ہمرہاں سے ہم
معلوم سب ہے پوچھتے ہو پھر بھی مدعا
اب تم سے دل کی بات کہیں کیا زباں سے ہم
مایوس بھی تو کرتے نہیں تم زراہِ ناز
تنگ آگئے ہیں کش مکشِ امتحاں سے ہم
ہے انتہائے یاس بھی اک ابتدائے شوق
پھر آگئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم
حسرت پھر اور جا کے کریں کس کی بندگی
اچھا جو سر اٹھائیں بھی اس آستاں سے ہم