بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں (حسرت موہانی)

بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں

الٰہی! ترکِ الفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں    

نہ چھیڑ اے ہم نشیں کیفیتِ صہبا کے افسانے

شرابِ بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں

رہا کرتے ہیں قیدِ ہوش میں اے وائے ناکامی

وہ دشتِ خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں

نہیں آتی تو ان کی یاد مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

حقیقت کھل گئی حسرت تِرے ترکِ محبت کی

تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *