توڑ کر عہدِ کرم ناآشنا ہو جایئے (حسرت موہانی)

توڑ کر عہدِ کرم ناآشنا ہو جایئے

بندہ پرور جایئے اچھا خفا ہو جایئے

میرے عذرِ جرم پر مطلق نہ کیجے التفات

بل کہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جایئے

خاطرِ محروم کو بھی کر دیجیے محوِ الم

درپئے ایذائے جانِ مبتلا ہو جایئے

میری تحریرِ ندامت کا نہ دیجے کچھ جواب

دیکھ لیجے اور تغافل آشنا ہو جائیے

بھول کر بھی اس ستم پرورو کی پھِر آئے نہ یاد

اس قدر بیگانئہ عہدِ وفا ہو جائیے

ہائے ری بے اختیاری یہ تو سب کچھ  ہو مگر

اس سراپا ناز سے کیوں کر خفا ہو جائیے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *