سر یہ حاضر ہے جو ارشاد ہو مر جانے کو (حسرت موہانی)

سر یہ حاضر ہے جو ارشاد ہو مر جانے کو

کون ٹالے گا بھلا آپ کے فرمانے کو

دانشِ بخت ہے بے دانشیِ شوق کا نام

لوگ دیوانہ نہ سمجھیں ترے دیوانے کو

بھول جاؤں میں انہیں ہو نہیں سکتا ناصح

آگ لگ جائے ظالم ترے سمجھانے کو

دیکھ لیں شمع کو تاثیرِ وفا کے منکر

جل بجھی خود بھی جو جلایا تھا پروانے کو

دل یہ کہتا ہے میں ہوں دردِ محمت کا غلام

جس نے اباد کیا ہے مرے ویرانے کو

روح کہتی ہے مری جان ہے وہ نورِ جمال

کر دیا جس نے منور مرے کاشانے کو

برق کا قول مجھے یاد ہے اب تک حسرت

زندگی کہتے ہیں دنیا سے گزر جانے کو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *