عشق کو بے نقاب ہونا تھا (جگر مراد آبادی)

عشق کو بے نقاب ہونا تھا

آپ اپنا جواب ہو نا تھا

مستِ جامِ شراب ہونا تھا

بے خودئی اضطراب ہونا تھا

تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں

ہاں مجھے خراب ہونا تھا

آؤ مل جاؤ مسکرا کے گلے

ہو چکا جو عتاب ہونا تھا

کوچئہ عشق میں نکل آیا

جس کو خانہ خراب ہونا تھا

مستِ جامِ شراب خاک ہوتے

غرقِ جامِ شراب ہونا تھا

دل کہ جس پر ہیں نقش رنگا رنگ

اس کو سدا کتاب ہونا تھا

ہم نے ناکامیوں کو ڈھونڈ لیا

آخرش کامیاب ہونا تھا

کیوں نہ ہوتا ستم بھی بے پایاں

کرمِ بے حساب ہونا تھا

کیوں نظر حیرتوں میں ڈوب گئی

موجِ صد اضطراب ہونا تھا

ہو چکا روزِ اولیں ہی جگر

جس کو جتنا خراب ہونا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *