پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلا کے رہ گئے (حسرت موہانی)

پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلا کے رہ گئے

مشتاقِ دید اور بھی للچا کے رہ گئے

گم کردہ راہ عشق فنا کیوں نہ ہو گیا

احساں جو اس پہ خضر و مسیحا کے رہ گئے

آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہارِ حسن

آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے

جب عاشقوں سے صدمئہ ہجراں نہ اٹھ سکا

آخر کو ایک روز وہ سم کھا کے رہ گئے

جب وہ چھٹا تو کچھ نہ رہا دل میں مگر

داغِ فراق اس گلِ رعنا کے رہ گئے

ملنے کی ان سے ایک بھی صورت نہ بن پڑی

سارے مسودے دلِ رعنا کے رہ گئے

دل کی لگی بجھا بھی وہ سکتے تو بات تھی

یہ کیا ہوا کہ آگ ہی بھڑکا کے رہ گئے

آئے بھی وہ چلے بھی گئے وہ مثالِ برق

دل ہی میں حوصلے دلِ شیدا کے رہ گئے

پہلے تو خوں مرا بہایا خوشی خوشی

پھر کیا وہ خود ہی سوچ کے پچھتا کے رہ گئے

دعوۃ عاشقی ہے تو حسرت کرو نبھاہ

یہ کیا کے ابتداء ہی میں گھبرا کے رہ گئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *