جو یہ کہتے ہیں کوئی پیشِ نظر ہے ہی نہیں
کون سی ذات کے منکر ہیں، اگر ہے ہی نہیں
پھر جو اس شہر میں آنا ہو تو ملنا مجھ سے
گھر کا آسان پتہ یہ ہے کہ، گھر ہے ہی نہیں
بے ارادہ ہی ترے پاس چلا آیا ہوں
کام کچھ ہو تو کہوں تجھ سے، مگر ہے ہی نہیں
اس لیے نہیں ہم کو خواہشِ حورانِ بہشت
ایک چہرہ جو اِدہر ہے وہ اُدہر ہے ہی نہیں
لفظ سے لفظ مجھے جوڑنا پڑتا ہے میاں
میری قسمت میں کوئی مصرعئہ تر ہے ہی نہیں
چھپ کے کرتا ہے کوئی میری ورق گردانی میں نے
رکھا تھا جہاں مور کا پر، ہے ہی نہیں