شکستِ زندگی ویسے بھی موت ہی ہے نا (افضل خان)

شکستِ زندگی ویسے بھی موت ہی ہے نا

تو سچ بتا یہ ملاقات آخری ہے نا

کہا نہیں تھا مرا جسم اور بھر یا رب

سو اب یہ خاک ترے پاس بچ گئی ہے نا

تو میرے حال سے انجان کب ہے اے دنیا

جو بات کہہ نہیں پایا سمجھ رہی ہے نا

اسی لیے ہمیں احساسِ جرم ہے شاید

ابھی ہماری وحشت نئی نئی ہے نا

یہ کور چشم اجالوں سے عشق کرتے ہیں

جو گھر جلا کے بھی کہتے ہیں روشنی ہے نا

میں خود بھی یار تجھے بھولنے کے حق میں ہوں

مگر جو بیچ میں کم بخت شاعری ہے نا

میں جان بوجھ کے ایا تھا تیغ اورترے بیچ

میاں نبھانی تو پڑتی ہے دوستی ہے نا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *