قاتل کا وار جب تنِ بسمل پہ چل گیا (منشی محمد حبیب احمد)

قاتل کا وار جب  تنِ بسمل پہ چل گیا

خنجر کے ساتھ دم بھی تڑپ کر نکل گیا

جادو نگاہِ یار کا جب مجھ پہ چل گیا

رنگت نکھر گئی مرا چہرہ بدل گیا

جلوے کی ہٹ کلیم نے کی تھی وہ بچ رہے

حیرت یہ ہو رہی ہے کہ کیوں طور جل گیا

بازارِ فراق اٹھ نہ سکا موت آگئی

پھندہ گلے سے ہجر کا میرے نکل گیا

اٹھی جو دل میں ٹیس تو بے چین کر گئی

اٹھا جو درد دل میں تو پہلو بدل گیا

قاصد سے جب سنا کہ وہ آتے ہیں میرے گھر

باقی کوئی خلش نہ رہی دل سنبھل گیا

سنجر جو ہوا عشقِ محمد میں بے قرار

یثرب کو شوقِ دید میں وہ سر کے بل گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *