اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھو کر میں زمانہ ہے
تصویر کے دو رخ ہیں ، جان اور غمِ جاناں
اک نقش چھپانا ہے ، اک نقش دکھانا ہے
یہ عشق نہیں آساں ، بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگر لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے ، رہ جائے سو دانا ہے