بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تِری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں
تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں
ہم اپنے سر اے دوست ترا احسان لیتے ہیں
رفیقِ زندگی تھی اب انیسِ وقتِ آخر ہے
تِرا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں
فراق اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں