جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس اشفتہ سری کا
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اِس کارگہِ شیشہ گری کا
ٹُک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغِ سحری کا