رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
بہ رنگِ صوتِ جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری
اُسی سے دور رہا اصل مدعا جو تھا
گئی یہ عمرِ عزیزیز آہ رائگاں میری
ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری
دیا دکھائی مجھے تو اسی کا جلوہ میر
پڑی جہاں میں جا کر نظر جہاں میری