ہجر میں ہوگا وصال کا کیا (مضطر خیر آبادی)

ہجر میں ہوگا وصال کا کیا

خواب ہی بن گیا خیال کا کیا

خود نمائی پہ خاک ڈالو تم

دیکھنا شکلِ بے مثال کا کیا

تیری فرقت کے دن خدا کاٹے

ہو رہے گا وصال کا کیا

دل کے دینے میں عذر کس کو ہے

جان ہی دے رہے ہیں مال کا کیا

حال اس نے ہمارا پوچھا ہے

پوچھنا اب ہمارے حال کا کیا

وصال کی التجا پہ بگڑے کیوں

سن کے چپ ہو رہو سوال کا کیا

دور کی عاشقی گناہ نہیں

دیکھ لیتے ہیں دیکھ بھال کا کیا

زلف کو کیوں جکڑ کے باندھا ہے

اس نے بوسہ لیا تھا گال کا کیا

آج تم کیوں ملول بیٹھے ہو

وصل دن ہے مرے وصال کا کیا

جب کہا تم سے روز ملتا ہوں

ہنس کے کہنے لگے خیال کا کیا

رنج دے کر جو خوش ہوا اے مضطر

اس کو صدمہ مرے ملال کا کیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *