تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
ہوں اس کوچہ کے ہر ذرہ سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
دلِ مضطر سے پُوچھ اے رونقِ بزم
میں خُود آیا نہیں لایا گیا ہوں
لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں
کجا میں اور کجا اے شاد دنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں