نگہ کی برچھیاں جو سہہ سکے سینا اُسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اُسی کا ہے
مکدر یا مصفا جس کو یہ دونوں ہی یکساں ہوں
حقیقت میں وہی مے خوار ہے ، پینا اُسی کا ہے
یہ بزم ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں ، مینا اُسی کا ہے
امیدیں جب بڑھیں حد سے طلسمی سانپ ہیں زاہد
جو توڑے یہ طلسم اے دوست گنجینہ اُسی کا ہے
کدورت سے دل اپنا پاک رکھ اے شاد پیری میں
کہ جس کو منہ دکھانا ہے یہ آئینہ اُسی کا ہے