کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا
مرتے مرتے ہوش باقی تیرے دیوانے میں تھا
دیکھتا تھا جس طرف اپنا ہی جلوہ تھا عیاں
میں نہ تھا وحشی کوئی اِس آئنہ خانے میں تھا
بوریا تھا ، کچھ شبینہ مے تھی یا توٹے سبو
اور کیا تھا اس کے سوا مستوں کے ویرانے میں تھا
ہنستے ہنستے رو دیا کرتے تھے سب بے اختیار
اک نئی ترکیب کا درد اپنے افسانے میں تھا
شاد کچھ پوچھو نہ مجھ سے میرے دل کے داغ کو
ٹمٹماتا سا چراغ اک اپنے ویرانے میں تھا