ستم ہو جائے تمہیدِ کرم ایسا بھی ہوتا ہے (حسرت موہانی)

ستم ہو جائے تمہیدِ کرم ایسا بھی ہوتا ہے

محبت میں بتا اے ضبطِ غم ایسا بھی ہوتا ہے

جلا دیتی ہیں سب رنج و الم حیرانیاں میری

تِرے تمکینِ بے حد کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے

جفائے یار کے شکوے نہ کر اے رنجِ ناکامی

امید و یاس دونوں ہوں بہم ایسا بھی ہوتا ہے

وقارِ صبر کھویا گریہ ہائے بے قراری نے

کہیں اے اعتبارِ چشمِ نم ایسا بھی ہوتا ہے

یہ دعوائے وفا کیوں شکوہ سنجِ جور ہے حسرت

دیارِ شوق میں اے محوِ غم ایسا بھی ہوتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *