شوخی نے تیری لطف نہ رکھا حجاب میں (مصطفیٰ خان شیفتہ)

شوخی نے تیری لطف نہ رکھا حجاب میں

جلوے نے تیرے آگ لگائی نقاب میں

وہ قطرہ ہوں کہ موجئہ دریا میں گم ہوا

وہ سایہ ہوں کہ محو ہوا آفتاب میں

سالک کی یہ مُراد کہ مجھ سے ہو نفس بھی

رہزن کو یہ خیال کہ رہرو ہو خواب میں

جور و ستم عیاں ہے، وفا و کرم نہاں

لڑتے ہیں جاگتے میں مناتے ہیں خواب میں

حیرت ہے کیا، نقاب ہیں گر رنگ رنگ کے؟

نیرنگِ جلوہ سے ہے تنوع نقاب میں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *