گیسو رُخِ روشن سے وہ ٹلنے نہیں دیتے
دن ہوتے ہوئے دھوپ نکلنے نہیں دیتے
آنچل میں چھپا لیتے ہیں شمعِ رُخِ روشن
پروانے تو جل جائیں وہ جلنے نہیں دیتے
بکھرادی وہیں زُلف ذرا رُخ سے جو سرکی
کیا رات ڈھلے رات وہ ڈھلنے نہیں دیتے
کس درجہ ہیں بے درد تیرے ہجر کے صدمے
دل کو تیری یادوں سے بہلنے نہیں دیتے
دیکھا ہے جسے بھی وہ گراتے ہیں نظر سے
چاہے بھی سنبھلنا تو وہ سنبھلنے نہیں دیتے
گلشن پہ اداسی کی فضا دیکھ رہا ہوں
وہ درد کے موسم کو بدلنے نہیں دیتے
بے راہ نہ کیونکر ہوں بھلا رہروِ منزل
جب راہنما راہ پہ چلنے نہیں دیتے
وہ سامنے ہوتے ہیں تو ہوتا ہے یہ عالم
ارمان مچلتے ہیں مچلنے نہیں دیتے
بدنام وہ ہو جائیں گے یہ سوچ کے پرنم
محفل میں ہم آنسو بھی نکلنے نہیں دیتے