عجب تلاشِ مسلسل کا انجام ہوا (آنس معین)

عجب تلاشِ مسلسل کا انجام ہوا

حصول رزق ہوا بھی تو زیرِ دام ہوا

تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی

نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقتِ شام ہوا

ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا

کہیں پہ سر کہیں پگڑی کا احترام ہوا

ذرا سی عمر عداوت کی لمبی فہرستیں

عجیب قرض وراثت میں میرے نام ہوا

نہ تھی زمیں میں وسعت مری نظر جیسی

بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا

ہم اپنے ساتھ لئے پھر رہے ہیں پچھتاوا

خیال لوٹ کے جانے کا گام گام ہوا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *