ایسی راتیں بھی کئی گزری ہیں (محمد دین تاثیر)

سائے

ایسی راتیں بھی کئی گزری ہیں

جب تِری یاد نہیں آئی ہے

درد سینے میں مچلتا ہے مگر

لب پہ فریاد نہیں آتی ہے

ہر گنہ سامنے آ جاتا ہے

جیسے تاریک چٹانوں کی قطار

نہ کوئی حیلئہ تیشہ کاری

نہ مداوائے رہائی، نہ قرار

ایسی راتیں بھی ہیں گزری مجھ پر

جب تری راہ گزر میں سائے

ہر جگہ چار طرف تھے چھائے

کبھی آئے، کبھی بھاگے

کبھی بھاگے، کبھی آئے

تو نہ تھی، تیری طرح کے سائے

سائے ہی سائے تھے رقصاں

میں نہ تھا، میری طرح کے سائے

سائے ہی سائے تھے لرزاں لرزاں

سائے ہی سائے، تری راہ گزر کے سائے

ایسی راتیں بھی ہیں گزری مجھ پر

جب تری یاد نہیں آئی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *