روشنی آنے دو ، دیوار کو در ہونے دو (شبنم شکیل)

روشنی آنے دو ، دیوار کو در ہونے دو

سحرِ شب ٹوٹنے دو ، نورِ سحر ہونے دو

ایک پھر پہ نہ ضائع کرو برسات اپنی

صدفِ چشم میں اشکوں کو گہر ہونے دو

دل ہو دریا تو تموج اسے راس آتا ہے

روز پیدا مرے دریا میں بھنور ہونے دو

کبھی پندار نے دی بات نہ بننے اب کے

گفگتو اس سے بہ اندازِ دگر ہونے دو

دالنے دو مجھے اشیاء کی حقیقت پہ نظر

نیست ہوتا ہے جو خوابوں کا نگر ہونے دو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *