کسی شاعر سے کبھی خواب نہ چھینو اس کے (شبنم شکیل)

خواب

کسی شاعر سے کبھی خواب نہ چھینو اس کے

خواب چھینو گے تو بے موت ہی مر جائے گا

اور کچھ ہاتھ تمہارے بھی نہیں آئے گا

اس کی فطرت میں ہے بس خواب نگر میں رہنا

جس کی پونجی ہو فقط خواب اسے کیا کہنا

خواب کی دھن میں وہ متوالا مگر جب بھی کبھی

گنگناتا ہے کوئی گیت تو گھبراتے ہو

تم پرندوں کے چہکنے سے بھی ڈر جاتے ہو

کس لئے بنتے ہو تم سازِ سخن کے دشمن

کس لئے ہوتے ہو بے ساختہ پن کے دشمن

تم سے امید مگر کیا رکھی جائے

تم تو زنجیر کیا کرتے ہو خوابوں کو بھی اب

فردِ جرم ان پہ صداقت کی اگر لگ جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *