کوئی شاخِ تشنہ و خشک جس سے ہری نہ ہو وہ سحاب کیا؟ (م حسن لطیفی)

رشحات

کوئی شاخِ تشنہ و خشک جس سے ہری نہ ہو وہ سحاب کیا؟

جو چھلک کے رنگ نہ بھر سکے رگ و ریشہ میں وہ شباب کیا؟

دلِ گمشدہ کو میں ڈھونڈنے کہیں شب کو محوِ جنوں چلا!

تو صدا سی آئی یہ سینہ سے  کہ تلاشِ خانہ خراب کیا؟

طرب آفریں سہی رت، کبھی ملے بار سوز کو ساز میں

نہ تنوع اتنا بھی جس کی طرزِ نوا میں ہو وہ رباب کیا؟

نہیں پھول پھول مہکے بغیر کھلے بلا سے کھلے

ہو مشام تازہ نہ جس کی روحِ شمیم سے وہ گلاب کیا؟

شکنیں یہ شرمِ نہاں کی ہیں نظر آرہا ہے جو پردہ سا

ہو تہوں میں گر نہ حیائے جلوہ دبی ہوئی تو حجاب کیا؟

   جو لکھے تھے شوق سے خط انہیں فقط اتنا ان کا جواب تھ؟

کہ جواب ایسی جسارتوں کا سکوت ہو تو جواب کیا؟

جو پلائی ہے تو یہ مستئی مئے عیش ، رات کا ساتھ دے

ہو دراز نشہ نہ جس کا شمع کے بجھنے تک وہ شراب کیا؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *