لاؤ ہاتھ اپنا لاؤ ذرا (فہمیدہ ریاض)

لاؤ ہاتھ اپنا لاؤ ذرا

لاؤ ہاتھ اپنا لاؤ ذرا

چھو کے میرا بدن

اپنے بچے کے دِل کا دھڑکنا سنو

ناف کے اس طرف

اس کی جنبش کو محسوس کرتے ہو تم؟

بس یہیں چھوڑ دو

تھوڑی دیر اور اس ہاتھ کو میرے ٹھندے بدن پر یہیں چھوڑ دو

میرے بے کل نفس کو قرار آگیا

میرے عیسیٰ ! مرے درد کے چارہ گر

میرا ہر موئے تن

اِس ہتھیلی سے تسکین پانے لگا

اِس ہتھیلی کے نیچے مرا لال کروٹ سی لینے لگا

انگلیوں سے بدن اُس کا پہچان لو

تم اسے جان لو

چومنے دو مجھے اپنی یہ انگلیاں

 اُن کی ہر پورکو چومنے دو مجھے

ناخنوں کو لبوں سے لگا لوں ذرا

اِس ہتھیلی میں منہ تو چھپا لوں ذرا

پھول لاتی ہوئی یہ ہری انگلیاں

میری آنکھوں سے انسو ابلتے ہوئے

ان سے سینچوں گی میں

پھول لاتی ہوئی انگلیوں کی جڑیں، چومنے دو مجھے

اپنے بال، اپنے ماتھے کا چاند، اپنے لب

یہ چمکتی ہوئی کالی آنکھیں

مِرے کانپتے ہونٹ، میری چھلکتی ہوئی آنکھ کو دیکھ کر کتنی حیران ہیں

تم کو معلوم کیا، تم کو معلوم کیا

تم نے جانے مجھے کیا سے کیا کر دیا

میرے اندر اندھیرے کا آسیب تھا

یا کراں تا کراں ایک انمٹ خلا

یوں ہی پھرتی تھی میں

زیست کے ذائقے کو ترستی ہوئی

دل میں آنسو بھرے، سب پہ ہنستی ہوئی

تم نے اندر مِرا اس طرح بھر دیا

پھُوٹتی ہے مرے جسم سے روشنی

سب مقدس کتابیں جو نازل ہوئیں

سب پیمبر جو اب تک اتارے گئے

سب فرشتے کہ ہیں بادلوں سے پرے

رنگ ، سنگیت، سُر، پھول، کلیاں، شجر

صُبحدم پیڑ کی جھومتی ڈالیاں

اُن کے مفہوم جو بھی بتائے گئے

خاک پر بسنے والے بشر کو مسرت کے جتنے بھی نغمے سنائے گئے

سب رشی، سب مُنی، انبیا اولیا

خیر کے دیوتا، حُسن، نیکی، خدا

آج سب پر مجھے

اعتبار آ گیا۔۔۔۔۔۔اعتبار آ گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *